Haunted story

 خواب محل کی داستاں

رائٹر سنی شاہ

قسط نمبر 1 



ایک خوب صورت ندھی جس کا پانی کانچ کی طرح شفاف اور دور کہیں سے بہتی آرہی ہو ندھی کے اس پار سبزہ اور پھلوں سے بھرے ہوئے درخت اور دوسری طرف بڑھے بڑھے پہاڑ اور ایسی ٹھنڈی حوا جو انسان سے ٹکراتے ہی پرسکوں کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 


شہروز اٹھو جلدی شہروز آج پھر تم کالج سے لیٹ ہو جائو گے بیٹا ۔۔۔ اچھا ماں لگتا ہے آپ میرے خواب کو کبھی پورا نہیں ہونے دو۔۔۔۔۔ ٹائم سے پڑنے جائے گا تو ہی خواب پورے کرے گا نا ۔۔۔۔۔ شہروز اور اس کی والدہ چھوٹے سے گھر میں اکیلے ہی رہتے تھے شہروز 19 سال کا تھا اس کی 12 سال کی عمر میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا وہ دھمیں کے مریض تھے اُن کے انتقال کرنے کے بعد شہروز کی پھپھو اور اس کی تائی نے اس کی ماں پر چوری کا الزام لگا کر انہیں گھر سے نکلوا دیا تھا اس لیئے اس شاہدا بیگم شہروز کو لیکر وہاں سے دور ایک گاؤں میں رہنے لگی گائوں کے مونچھی نے اکیلی عورت دیکھ کر اسے گھر دے دیا اور اسے اپنی بہنوں کی طرح رکھا شاہدا بیگم ایک مضبوط حمت والی عورت تھی اس نے مونچھی صاحب سے بہن ہونے کے ناطے ایک سلائی مشین کا مطالبہ کیا انہوں نے انہیں مشین لے دی جس کی وجہ سے وہ تین وقت کی روٹی اور شہروز کی فیس با آسانی نکال لیتی تھیں اور عید شبرات پر مونچھی صاحب انہیں سب کچھ مہیہ کرتے تھے ۔۔۔۔


شہروز آج پھر لیٹ آنے کی وجہ سے سر سے ڈانٹ کھا رہا تھا اور کلاس کے سارے سٹوڈنٹ اس پر ہنس رہے تھے

اب شہروز اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ انیل شہروز کا بہت اچھا دوست تھا ۔۔۔۔۔ اوئے تو آج پھر لیٹ آیا ۔۔۔

ہاں یار بئک خراب تھی ۔۔۔ تو کبھی ہشمت صاحب کی ڈانٹ کھائے بغیر بھی کلاس میں آسکتا ہے ۔۔۔ شہروز پتا نہیں 🙄

انیل۔۔۔ چل چھوڑ کلاس کے بعد ہم پرانے درختوں کے پاس امرود کھانے جائیں گے ۔۔۔۔ شہروز کیا بکواس کر رہا اب ہم بچے ہیں کیا بیوقوف ۔۔۔۔ انیل۔۔۔ اس میں بچوں والی کیا بات ہے سنجیدہ لوگ بھی وہاں بیٹھ کر امرود کھاتے ہیں اور باتیں بھی کرتے ہیں ۔۔۔۔ شہروز اچھا پہلے تو تم کہتے تھے تمہیں وہاں سے ڈر لگتا ہے وہاں چڑیلیں اترتی ہیں اور اب تجھے امرود کھانے کا چسکا کہاں سے پڑ گیا ۔۔۔۔ 

انیل۔۔۔ یار تب ہم صرف 15 سال کے تھے اب وہ بات تھوڑی نا ہے تو چلے گا نا دوست ۔۔۔۔۔ شہروز ٹھیک ہے یار اور اگر تم نے وہاں جا کر یہ بولا کے اب یہاں سے جلدی چلو تو میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔


وہ دونوں چھٹی کے بعد اس پرانے درختوں کے پاس چلے گئے انیل امرود توڑ لایا تھا دونوں بیٹھے باتیں کرنے لگے

شہروز یار تونے کبھی ماہا کی آنکھوں میں میرے لیئے کچھ دیکھا ہے ۔۔۔ انیل۔۔۔ اتنا بھی کچھ خاص نہیں وہ ہمیشہ اپنے آپ کو اونچا سمجتی ہے امیر باپ کی بچی ۔۔۔۔۔۔

شہروز۔۔ پیکٹ سے سیگریٹ نکالتے بولا ہرامی تیری بھابھی ہے۔۔۔ انیل۔۔۔ جا نا یار جب بھابھی بنے گی تب دیکھی جائے گی ۔۔۔

سورج غروب ہو گیا تھا اندھیرا پھیل رہا تھا جب انیل نے اسے کہا ۔۔۔ چل یار گھر چلتے ہیں ۔۔۔ شہروز تو جا نا میں آتا ہوں ۔۔۔۔ انیل۔۔ نہیں نہیں میں اکیلا نہیں جائوں گا ۔۔۔۔

اب شہروز بھی ساتھ چل پڑا ابھی وہ تین قدم چلے ہی تھے 

شہروز ۔۔۔۔ کو ایسا لگا جیسے اسے کسی نے آواز دی ہو شہروز رکو ۔۔۔ انیل کیا ہے ۔۔۔۔ یار لگتا ہے کسی نے مجھے آواز دی ہے کسی لڑکی نے ۔۔۔ انیل۔۔۔۔ تجھے ہر جگہ لڑکیاں ہی کیوں دکھتی ہیں ۔۔۔۔ شہروز ۔۔۔ یار سچ میں واقعی سُنائی دی ہے ۔۔۔۔۔ انیل اسے انسنا کر کے چل دیا ۔۔۔ 

اب شہروز بھی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔۔۔

شہروز۔۔۔۔ گھر آیا تو اس کی والدہ سو چکی تھی شہروز اس آواز کو محسوس کر رہا تھا وہ آواز کس کی تھی وہ مجھے کیسے جانتی تھی شہروز کا یہ تیسرا سیگریٹ تھا اس نے اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھا 12بج رہے تھے شہروز نیچے آکر سو گیا ۔۔۔۔۔۔


پھر سے اسے وہی خواب نظر آیا ایک خوبصورت ندی شیشہ جیسا شفاف پانی اور کہیں دور سے بہتی آرہی ہو نددی کے اس پار سبزہ اور درخت دوسری طرف پہاڑ ہی پہاڑ سرد ہوائوں کی لہر میں ایک آواز میٹھی سی آواز جو اس کا نام پکار رہی تھی۔۔۔ یہ وہی آواز تھی جو اسے پرانے درختوں کے پاس سنائی دی تھی ۔۔۔۔ شہروز ایک دم سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔

گھڑی پر ٹائم دیکھا ابھی 2 بجے تھے شہروز پھر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا ۔۔۔


To be continued

Comments

Popular posts from this blog